خدا کی قسم لعنت ہے ہم پر، ہم تو مسلمان ہونے کی ہر حد کو پار کر چکے ہیں، صرف مسلمان کا ٹھپّا اپنے گریبان پر لگائےگھومتے ہیں، کہنے کو تو ہم شرفا ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، ملنسار ہیں، اور کبھی کبھار تو اپنے آپکو کو مومن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے، مگر قسم خدا کی ہم لوگ انسان کہلانے کےلائق بہ نہیں ہیں. رونہ آتا ہے مجھے اپنے آپ پر اور اپنے ملک پر اور اس میں بسنے والے لوگوں پر  ہم تو بہت پیر ہیں، اولیاء کےشاگرد ہیں، سینوں میں قرآن لیے پھرتے ہیں، عقیدت مند، سعادت مند مسلمان ہیں، مگر میں کہتی ہوں لعنت ہے اگر ہم اپنےآپ  کو یہ سب دیکھنے کے باوجود مسلمان کہتے ہیں تو. کس نے کہہ دیا کے ہم مسلمان ہیں، کیا مسلمان جھوٹ بولتا ہے؟ کیا وہ کسی کا قتل کرتا ہے؟ کیا غبن کرتا ہے؟ کیا حق تلفی کرنے والا مسلمان ہے؟ جواب دو؟ اور یہ تو سب صغریٰ گناہ ہیں بس اسکی رسی دراز کرتے جاؤ اور الله کےعذاب کا شکار بن جاؤ. شرم کرو میں کہتی ہوں اب بھی کچھ باقی ہے تو تھوڑی شرم ہی کرلو ذرّہ برابر بھی جو تم میں الله کا خوف رہ گیا ہو اے انسان ذرّہ برابرہی صحیح . تم نے تو خدا کو صرف سحری اور افطار کی نشریات تک ہی قید کردیا ہے، روز وہی سوال، وہی جواب، وہی  شقوق وہی شبہات، پیدائش  سےمسلمان ہو اور بچپن سے نہ صحیح تو جوانی  سے روزے تو  رکھ  ہی رہے ہو، بچپن  سےنہ صحیح مگر تیسری جماعت سے تو اسلامیات پڑھ ہی رہے ہو نہ، تب بھی وہی مسئلے ہیں ہمارے بیچ میں، ہم کیا اب تک اپنے دین کے میناروں کو  ہی نہیں سمجھ سکے. عالم و فاضل و قاری و مبتدعی کہنےکو تو  ہم سب کچھ ہیں مگر حقیقت  میں کچھ بھی نہیں
ہم تو ان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جو کم از کم انسان کے مر جانے کا تو انتظار کرتا ہے، مگر ہم تو زندہ لوگوں کا گوشت نوچ کر کھا لیتے ہیں. اے مسلمان تیرے کیا کہنے.تجھ سے تبصرے کروا لو، جھوٹ بلوا لو، قسمیں اٹھوا لو، سب کچھ کروا لو مگر صرف سچ، ایمانداری اور حقیقت سے کبھی نظرین نہ ملوانا، مگر یہ بھی ہماری خوش فہمی ہے, اب تو وہ زمانہ بھی گیا جب شرم دلانے سے تجھے تھوڑی شرم آجاتی تھی، اب تو چلّو بھر پانی میں بھی کیا سیلاب کے پانی میں بھی ڈوبکی لگا کر تو زندہ ہی باہر آجائے گا اورسنائے گا کہ الله کا تجھ پر خاص کرم تھا, تو مومن ہے اسی لیہ بچ گیا. افسوس تجھ پر از حد افسوس.
مت رو کے یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ ہماری مدد کیوں کر کوئی نہیں کر رہا؟ ہم مظلوم، ہم لاچار، ہم پر ظلم ہورہا ہے، ہمارا حکمران بدکردار ہے، بےحس ہے، ارے سب سے بڑا بےحس تو تو خود ہے نہ مراد، اس کو ڈھونڈ کر کروڑوں ووٹ ڈال کر لانے والا تو خود ہے،پھر کہاں کا رونہ اور کہاں کا شکوہ کرنا، جس قدر ہم خود گنہگار ہیں یہ سب ہماری ہی  کراماتوں کا نتیجہ ہے کسی اور کی نہیں. کسی امریکا نے پانی کے نلکے نہیں کھولے اور انڈیا کےدریا اتنا فالتو پانی نہیں لےکربیٹھے  ہوئےجو ہمارے  اوپر نچھاور کرتے پھریں، ہوش کر ذرا سی ہوش کر اے مسلمان، غور کر کے میں پاکستانی کہنے کے بجائےمسلمان ہونے پر زور کیوں دی رہی ہوں وہ اس لیہ کے پاکستانی ہونے کا حق تو ہم کافی پہلے ہی پیچھے چھوڑ چکے ہیں جب ہمارے بچوں کو اس ملک میں گندگی اور مچھر زیادہ نظرآنے   لگے تھے ، رہا اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا زعم تو وہ بھی بس ایک من گھڑت قصّہ لگتا ہے.
حیرت ہے مجھے اس شخص پر جو دو مظلوم لوگوں کو مار کر بھی اپنے آپ کو ڈھٹائی سےمسلمان کہہ رہا ہے، آفرین ہے تجھ پر آفرین ہے، اور آفرین ہے ان تمام لوگوں پر جنہوں نے وہاں اس بازار میں کھڑے ہوکر تماشا دیکھا، ان لوگوں پر جنہوں نے اس تماشے کی تصویرین اتاریں اور ان کو اپنے اپنے ڈبّوں میں قید کر کے اپنے شاہی دفتروں کی طرف افسوس کرتے ہوئے چل دیے ، اور سب سے زیادہ آفرین تو ان قانون کے رکھ والوں پر جنہوں نے اپنے کاندھوں پر سے ستارے فرش پر اڑا کر اس سارے تماشے کا کلائمیکس دیکھا. میں تو کہتی ہوں خدا تو آپ لوگ ہیں، اے بندائے ِ قوت ِ جہاں تجھے میرا سلام، تجھ جیسے بڑے دل والا اور کوئی نہیں، تجھے کسی کا خوف نہیں، کسی کا ڈر نہیں تجھے میرا سلام عرض ہو.
کیا ہی منظرہو گر تجھے بھی بیچ چوک میں لا کر ایسے ہی مارا جائے، کیا لگتا ہے تب تیری طاقت تیرے کام آئے گی؟ کیا لگتا ہے اگر اس جہاں میں نہیں تو روز ِ حشر اگر تیرے ساتھ یہ سلوک کیا جائےاور اس وقت تیری جگہ ڈنڈائے انصاف الله کے ہاتھ میں ہو تو تجھے کیا لگتا ہے وہ پولیس کے افسر تجھے بچا لیں گا؟ وہ دن جس دن موت کو ہی سلا دیا جائے گا، کیا تجھے وقت پر موت آجائے گی؟ اور اگر تیری ادھ مؤی لاش کو قربلا کے اس میدان میں سارے جہاں کے سامنے اسی طرح لٹکا دیا جائے اور ایک ایک بندے سے کہا جائے کے آکر ذرہ اسکا حساب تو کرو، تو تجھے کیا لگتا ہے تجھے موت آجائے گی؟ وہاں تو کوئی تیری چیخ سننے والا نہیں ہوگا، بس سب عبرت لینے والے ہونگے، مگر عبرت بھی کیسے, عبرت لینے کا وقت تو نکل چکا ہوگا، عبرت تو اس واقعے سے لینی چاہیے جو کچھ دن پہلے سیالکوٹ میں ہوا، جب دو معصوم بھائیوں کو بیچ چوراہے پر لا کر ان پر ڈاکو ہونے کا الزام تھونپ کر ان پر ڈنڈے برسائے گئے، اور اتنی بار برسائے گئے کہ وہ مظلوم اسی موقعے پر دم توڑ گئے. انکی شرافت کی گواہی دینے والوں کو دھکیل کر تماشبینوں سے دور پھینک دیا گیا، قانون کے پاسداروں نے تماشبینوں کو گھیر کر تماشے کی حدّت کو اور گرما دیا، کی جو کر رہے ہو بے خوف ہو کر کرو ہم تمھارے قانونی خدا تمھارے ساتھ ہیں، اور رونگٹے کھڑے کردینے والا منظر یہ کہ انکی ادھ مؤی نعشوں کو الٹا لٹکا کر انکی حرمت کی پاسداری بھی نہ کی  گئی، آفرین ہے اے انسان، اے مسلمان تجھ پر آفرین ہے. میرے تو حواس ہی نہیں کہ میں اُس گھر کہ منظر کا سوچ سکوں جہاں انکے دو جوان حافظ قرآن بیٹون کی نعشیں پوھنچائی گئی ہونگی، اس باپ کا سر کیسے جھکا ہوگا، جب اُس نے اپنے حافظ قرآن بیٹوں کی میتوں کو کندھا دیا ہوگا اور لوگ یہ کہہ رہے ہونگے دیکھو ڈاکوؤں کا باپ جا رہا ہے . الله  تُو ہی بہتر جاننے والا ہے یہ عبرت کا مقام کس کے لیے ہے یا رب  آلمین یہ عبرت کا مقام کس کے لیے ہے اور کیوں ہم یہ کہتے ہوئے  نظرآتے ہیں کہ بس جی الله کا عذاب ہے ہم پر الله کا عذاب ہے، اے انسان الله اتنا بھی ظالم نہیں کہ مظلوموں پر بنا کسی گناہ کے قہر ڈھاتا رہے، اے مسلمان بس اک بار ذرا اپنا گرہبان جھانک کر تو دیکھ تجھے کیا نظر اتا ہے؟
  الله اکبر اے انسان تیرا کوئی حال نہیں ، تو ہی طاقتور ہے تو ہی انصاف پرست ہے، تو نہ جھوٹا ہے، نہ مکّار ہے، نہ غدّار ہے تو تو خدا ہے، ہر فیصلے سے بے خوف اپنی آنا کا خدا ہے تو. کیا کبھی تنہا راتوں کو یہ سب سوچ کر بھی خوف نہیں آتا؟ یہ سوچ کر خوف نہیں آتا کہ اک دن منوں مٹی تلے ہم نے بھی دفن ہونا ہے، یہ سوچنا کے فرشتے جب اپنے سوالوں کا پٹارا کُھلینگے تو تب کہاں اپنا منہ چھپاتا پھریگا، الله سے بچ کر کہاں جانا ہے اے مسلمان الله سے بچ کر کہاں جانا ہے، اپنے گناہوں کے بوجھ تلے سب نے دھنس جانا ہے، کوئی بچانے والا نہیں ہوگا، کوئی پکار سننے والا نہیں ہوگا، کوئی عرضی لینے والا نہیں ہوگا، ہر کام شفاف طریقے سے ہوگا، ہر حساب بے نقص ہوگا.
اقبال کو اپنے مومن پر بڑا ناز تھا، اے اقبال تو نے تو مومن کو وہ بیان کیا جو وہ کبھی تھا ہی نہیں ، نہ اسکی گفتار میں حقیقت ہے اور نہ اسکے کردار میں کوئی  شان. جن چار عناصر سے تو نےمومن کو بنتا دیکھا وہ سب الله نے اپنے پاس سمبھال لئے ہیں کہ اب مومن صرف مسلمان ہے، نہ اسکے آگے کچھ اور نہ اسکے پیچھے کچھ، وہ پیدا ہوتا ہے، کانون میں ازان دی جاتی ہے اور مبارک ہو اس دنیا میں ایک اور مسلمان کا اضافہ. اقبال کی سوچ کے مومن اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، مومن تو کیا اے اقبال اب تو مسلمان بھی کہیں ڈھونڈنےسے نہیں ملتے