نہیں نہ امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


اقبال نے کہا اور کیا خوب کہا, ہزاروں مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں, ان کے لحو کی خوشبو سے رچی ہے یہ مٹی۔ ذرا نم کرو تو یہ دھرتی ان قربانیوں کا صلہ دینے لگتی ہے۔ مگر اب اس دھرتی نے بھی ہار مان لی ہے۔ مسلسل صلہ دیتے دیتے وہ ہمت ہار چکی ہے. سالوں سے بوئے ہوئے بیج کا پھل کب تک کاٹو گے۔ ذرا سوچو پیدائش سے لے کر اب تک اپنی اس سنہری دھرتی کو دیا کیا ہے؟ اپنی محنت سے اپنے لحو سے کبھی اس مٹی کو ذرخیز کیا ہے؟ تمھارے اگلے آنے والے سوال سے بھی باخوبی واقف ہوں۔ کہ جتنا لحو اب برس رہا ہے اس کا مقابلہ بھلا آزادی کی قربانی سے کیوں کر کریں۔ مگر میرے دل میں تو بس ایک ہی بات بسی ہےکہ کہاں وہ حق پرستوں کی اپنی آزادی ِ فکر کی جنگ اور کہاں آج کے حکمرانوں کی اپنی مضبوطی ِ اقتدار کے لئے جنگ۔ ذرا غور کر اے نوجواں, تو بڑا واضح فرق رکھا ہے دونوں میں. تو سارا دن بیٹھ کر اس سوچ میں لمحے گزار دیتا ہے کہ کاش کچھ ایسا ہو جائے پاکستان راتوں رات امریکہ بن جائے۔ کبھی اس بات پر بھی غور کر لیا کر کہ امریکیوں کو امریکہ بنانے کے لیے کتنی محنت اور بھاری سرمایکاری کرنی پڑھتی ہے۔ مگر تم کیا جانوتم تو پیدائش سے ہی سونے کے چمچے سے سونے کا نوالہ لینے والوں میں سے ہو. جس پنچھی نے کبھی قید دیکھی ہی نہ ہو اس کو کیا علم آزادی کس جام کا نام ہے۔ پوچھنا ہی ہے تو کسی کشمیری سے پوچھو آزادی کس گل کا نام ہے۔ کسی فلسطینی سے پوچھو آزادی سورج کی کس کرن کو کہتے ہیں۔ تم تو بس اس ٣٠ انچ کے ڈبےکو صبح شام تکتے رهتے ہو, جو اس پر سے سن لیا وہی حقیقت ہے، جو کچھ دیکھا وہ سب سے بڑا سچ ہے. نہ خود کسی چیز کو جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے کی، اور نہ ہی آگے کوئی ارادہ مطلوب لگتا ہے

موجودہ دور ِ حکومت کے نقص گنوانے ہوں تو صف میں سب سے آگے آپکو پایا جاتا ہے. بھلے مانس اگر جعلی ڈگری کے مرتکب ہیں تو کیا ہوا، رشوت لیتے ہیں تو کونسی بڑی بات ہے، اقربا پروری کے حامی ہیں تو کونسا بڑا گناہ کر دیا. ووٹ ڈال کر جس گناہ کا ارتکاب آپنے کیا ہے اور جو بیج آپنے بویا ہے، اس کا پھل تو اب کاٹنا ہی پڑے گا

میری تو اپنے آپ سے, سب سے, بس یہی التجاہ ہے کہ محنت نہیں کرسکتے نہ کرو، مدد نہیں کرسکتے نہ کرو، اس مٹی کو اپنے پسینے سے نم نہیں کرسکتے, نہ کرو مگر اے اس وطن کے باسیوں صرف ایک بار دل سے اس ملک کو اپنا تو مانو. چھوڑو باہر کے ملکوں کو وہاں کیا رکھا ہے، وہاں اُس دیس میں ایسی خوشبو کہاں. ایسی زرخیزی کہاں، ایسی الفت کہاں، ایسی چاہت کہاں- زندگی بھر لگا دو گے باہر, مگر پلٹ کر آنا تو اپنے لئے منوں مٹی ڈھونڈنے یہیں ہینا، تب کس منہ سے اسکو اپنا کہوگے، کس حق سے اسے اسکا فرض یاد دلاؤ گے

کچھ نہ کر سکو تو اک بار اسکو یہی که دو, اے میری دھرتی میری وارث تجھے میرا سلام
شکریہ پاکستان